Wednesday 31 July 2013

آنکھوں کا رنگ ، بات کا لہجہ بدل گی
وہ شخص اِیک شام میں کِتنا بدل گیا!

کُچھ دن تو میرا عکس رہا آئینے پہ نقش
پھر یوں ہُوا کہ خود مِرا چہرا بدل گیا

جب اپنے اپنے حال پہ ہم تم نہ رہ سکے
تو کیا ہوا جو ہم سے زمانہ بدل گیا

قدموں تلے جو ریت بچھی تھی وہ چل پڑی
اُس نے چھڑایا ہاتھ تو صحرا بدل گیا

کوئی بھی چیز اپنی جگہ پر نہیں رہی
جاتے ہی ایک شخص کے کیا کیا بدل گیا!

اِک سرکشی کی موج نے کیسا کیا کمال!
وہ بے نیاز سارے کا سارا بدل گیا

اُٹھ کر چلا گیا کوئی وقفے کے درمیاں
پردہ اُٹھا تو سار اتماشا بدل گیا

حیرت سے سارے لفظ اُسے دیکھتے رہے
باتوں میں اپنی بات کو کیسا بدل گیا

کہنے کو ایک صحن میں دیوار ہی بنی
گھرکی فضا ، مکان کا نقشہ بدل گیا

شاید وفا کے کھیل سے اُکتا گیا تھا وہ
منزل کے پاس آکے جو رستہ بدل گیا

قائم کسی بھی حال پہ دُنیا نہیں رہی
تعبیر کھو گئی کبھی سپنا بدل گیا

منظر کا رنگ اصل میں سایا تھا رنگ کا
جس نے اُسے جدھر سے بھی دیکھا بدل گیا

اندر کے موسموں کی خبر اُس کی ہو گئی!
اُس نو بہارِ ناز کا چہرا بدل گیا

آنکھوں میں جتنے اشک تھے جُگنو سے بن گئے
وہ مسکرایا اور مری دنیا بدل گیا

اپنی گلی میں اپنا ہی گھر ڈھونڈتے ہیں لوگ
امجد یہ کون شہر کا نقشہ بدل گیا

شاعر: امجداسلام امجد

ღ♥♣▬ Main Aur Meri Tanhai ▬♣♥ღ
http://www.facebook.com/urdupoetrytanhai

No comments:

Post a Comment

Flag Counter

Flag Counter

Social Icons

 

Sample text

Sample Text