Monday, 11 March 2013

جو اُتر کے زینۂِ شام سے تیری چشم ِ خوش میں سما گئے۔۔۔،

جو اُتر کے زینۂِ شام سے
تیری چشم ِ خوش میں سما گئے

وھی جلتے بجھتے سے مہر و ماہ
میرے بام و در کو سجا گئے

یہ عجیب کھیل ھے عشق کا
میں نے آپ دیکھا ھے یہ معجزہ

وہ جو لفظ میرے گماں میں تھے
وہ تیری زبان پر آگئے

وہ جو گیت تم نے سنا نہیں
میری عمر بھر کا ریاض تھا

میرے درد کی تھی داستاں
جسے تم ہنسی میں اڑا گئے

وہ چراغ ِجاں کبھی جس کی لو
نہ کسی ھوا سے نگوں ھوئی

تیری بیوفائی کے وسوسے
اسے چپکے چپکے بجھا گئے

تیری بے رخی کے دیار میں
میں ھوا کے ساتھ ھوا ھُوا

تیرے آئینے کی تلاش میں
میرے خواب چہرہ گنوا گئے

تیرے وسوسوں کے فشار میں
تیرا شرار ِ رنگ اجڑ گیا

میری خواہشوں کے غبار میں
میرے ماہ و سال ِوفا گئے

وہ عجیب پھول سے لفظ تھے
تیرے ھونٹ جن سے مہک اٹھے

میرے دشتِ خواب میں دور تک
کوئی باغ جیسے لگا گئے

میری عمر سے نہ سمٹ سکے
میرے دل میں اتنے سوال تھے

تیرے پاس جتنے جواب تھے
تیری اک نگاہ میں آ گئے

"امجد اسلام امجد"

ღ♥♣▬ Main Aur Meri Tanhai ▬♣♥ღ
http://www.facebook.com/urdupoetrytanhai

No comments:

Post a Comment

Flag Counter

Flag Counter

Social Icons

 

Sample text

Sample Text